08-Jan-2022 لیکھنی کی کہانی مہربان
مہربان ۔۔۔۔۔۔۔میرے ہم دم
پرت 1۔۔۔
چہرہ ، شرارتی آنکھیں،دلکش انداز کالا سوٹ پہنے ،شفا بس اسٹینڈ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی ۔۔۔
شفا کھڑے کھڑے تھک گئی تھی ،وہ بیٹھنے کے لیے جگہ تلاش کرنے لگی ،ایک جگہ اُسنے اپنا بیگ رکھا اور بیٹھ گئی ۔۔
اُسنے نیچے دیکھا تو ایک کارڈ پڑا تھا،جس پر نام پتہ اور فون نمبر لکھا ہوا تھا ، نام اور پتہ تو مٹ گیا تھا ،لیکِن نمبر نہیں مٹا تھا ،
شفا خاموش طبیعت تھی ،لیکِن شرارتی بھی بہت تھی ،اپنے ہر ایک لمحے کا کھول کر مزا لیتی تھی ۔
جیسے اس وقت کر رہی تھی ۔۔
آج شفا کا پیپر تھا ،بس بھی لیٹ تھی ۔پریشان ہونے کی وجہِ وہ آرام سے بیٹھ کر اُس کارڈ پر لکھے نمبر کو ڈائل کرنے لگی ۔۔۔
اتنے میں شفا کی بس آگئی اُس نے وہ کارڈ وہی فیک دیا ،اور اپنا بیگ اٹھا کر بس میں چڑ گئی۔
پیپر دیکر شفا گھر واپس آگئی ،وہ کارڈ والی بات تو بلکل ہی بھول گئی تھی ،تھوڑے دن بعد شفا کے پاس فون آیا ،شفا اپنے گارڈن میں پھولوں کے پاس کھڑے ہوکر فوٹو لے رہی تھی ۔
شفا نے فون اٹھایا ،اور بولی۔۔
جی کوں ،،
ذیشان بولا ،،
خود مسڈ کال کر کے پوچھ رہی ہو کوں ،
شفا نے اپنی آنکھیں اوپر چڑھاتے ہوئے کہا ،
میں نے آپ کو کال کب کی ۔
پیچھے سے شفا کی امی بولی پڑی ،
شفا آجاؤ بیٹا ناشتہ تیار ہے ۔
ذیشان شفا کی امی سے شفا کا نام سن کر حیران ہو گیا ۔اور ایک دم سے بول بیٹھا ،
شفا تم ہو یے ۔
شفا حیرت میں پڑ گئی اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا کی وہ کیا بولے ،
شفا کے منہ سے بھی اچانک نکل پڑا ذیشان آپ ۔
دونوں زور سے ہس پڑے ۔
ذیشان بولا شفا تم کِتنی بدل گئی ہو ۔
اور تمہاری آواز پہلے تو بہت چیختی تھی ۔
اب تو تمہاری آواز ہی نہیں نکلتی ۔۔
شفا نے ہستے ہوئے کہا ۔
ذیشان اب میں بڑی ہو گئی ہو ۔امی کہتی ہے ۔
ذیشان ،،زور سے ہسا اور بولا اچھا ،امی کہتی ہے ۔
شفا بولی اچھا یے بتاؤ کہا ہو آج کل ۔
ذیشان بولا ہسپتال میں ۔مگر کیوں ۔۔۔
ذیشان بولا ،ڈاکٹر ہو ،ماشااللہ سے تو ہسپتال میں ہونگا ۔ شفا بولا وہ تم تو ڈاکٹر بن گتے ۔۔
ذیشان بولا بچپن میں تمھاری ناک بہُت نکلتی تھی ۔تب سے ہی میں نے سوچ لیا تھا ،کی میں نے ڈاکٹر ہو بن نہ ہے ۔
شفا بولی،کیا بات ہے ۔میں نے تمہیں ڈاکٹر بنا دیا شکر ادا کیا کرو میرا ۔
دونوں باتوں میں مشغول ہو گئے تھے ۔نہ شفا فون رکھ رہی تھی نہ ذیشان ۔۔
پیچھے سے شفا کی امّی کی آواز آئی آجاؤ شفا ،کیس سے اتنی گہری گفتگو چل رہی ہے ۔
شفا نے کہا ذیشان امی بلا رہی ہے ۔
فر بات کرتے ہے ۔۔
اتنا کہہ کر شفا نے فون رکھ دیا ۔
اور مسکراتی ہوئے ناشتہ کرنے لگی ۔
اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی ۔اور بہُت خوس خوس تھی ۔
ناشتے کے دوران اُسے اسکول کے وہ لمحے یاد آرہے تھے ۔جب ذیشان اُس سے کہتا تھا ۔کی وہ بڑے ہو کر شفا سے شادی کریگا ۔
یہی بات سوچتے سوچتے شفا مسکرا رہی تھی ۔
فر سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب گئی ۔۔
اور اپنے آپ سے باتے کرنے لگی کیا واقعی ذیشان مجھ سے شادی کریگا ۔
سامنے بیٹھی شفا کی امی نے شفا کو مسکراتا دیکھ کر کہا ،کیا بات ہے ،آج تو مسکراہٹ آسمان چّھو رہی ہے ۔،شفا مسکرائی نہیں امی ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔شفا کی امی نے بریڈ کا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے کہا میں نے کب کہا کی کوئی بات ہے ۔
شفا ٹیبل سے اٹھتے ہوئے بولی ،امی آپ بھی نہ ۔
اور اپنے کمرے میں چلی گئی ۔
کھڑکی کے پاس کھڑے ہوکر خیالو میں کھو گئی۔ وہ بچپن کے حسین خیال ۔ جنہونے دل کے موسم کو رنگینیاں دے دی تھی ۔۔
فر الماری سے ڈائری نکال کر کچھ لکھنے لگی ۔کالج کے دنوں میں بچے اپنے جذبات کتابوں میں ہی لکھتے ہے ۔۔
شفا اُن لڑکیوں کو بیوقوف کہتی تھی جو ڈائری لکھتی ہے ۔ لیکِن آج خود ڈائری اور کلم لیکر تاریخ نوٹ کرنے بیٹھ گئی تھی ۔
ہاتھ میں کلم لیے سوچتے سوچتے نیند آگئی ۔۔۔۔
صبح آنکھ کھلی تو 10 بج رہے تھے ۔۔کالج کے لیے لیٹ ہو گئی تھی ۔۔
شفا دوڑکر امی کے پاس گئی اور بولی ۔
امی اپنے مجھے اٹھایا کیوں نہیں ۔
میرا کالج چوٹ گیا ۔۔
کچن کی صفائی کرتے کرتے ۔شفا کی امی بولی آج کی تمھاری چٹھی ہے ۔تمہارے ابّو نے کہا تھا ،آج شفا کو کالج مت جانے دینا ۔۔۔
کیوں امی ۔۔کیا ہو گیا ۔۔۔
ابّو اور مجھے کالج کی چھوٹی کروا دے ۔۔
ہو ہے نہیں سکتا ۔۔
بتاؤ نہ کیا بات ہے ۔
کیوں نہیں بتایا آپ نے مجھے ۔
آج کالج جانا ضروری تھا ۔۔
آج نمرہ اور اس کے ابّو آرہے ہیں ۔۔
تمھیں دیکھنے ۔
اس لیے تمھیں کالج نہیں جانے دیا ۔
شفا حیرانی سے بولی ۔۔
امی یار ،،
میں کالج سے گھر ہی تو آتی ۔۔
آکر مل لیتی ۔آپ بھی نہ عجیب ہے ۔۔
اور واپس کمرے میں جانے لگی ۔
وہ تمہیں دیکھنے آرہے ہیں ۔۔تیار ہو جاؤ ۔۔۔
شیف ایک دم روک گئی ۔
مجھے دیکھنے آرہے ہے ۔
اور پلٹ کر بولی ۔
مجھے دیکھا نہیں ہے اُنہونے کیا۔۔
شفا کی امی نے سر پر ہاتھ رکھا اور بولی ۔
یہ خدا کیسی لڑکی ہے ۔۔۔۔
وہ تمہیں اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں ۔
اُنہونے رشتا مانگا ہے تمہارا ۔۔
اپنے بیٹے بلال کے لیے ۔۔۔۔
میں اور تمہارے ابّو تو بہت ہی خوس ہے ۔۔
لڑکا ڈاکٹر ہے ۔اچھا گھرانہ ہے۔ سب لوگ تعلیم یافتہ ہے ۔راج کروگی ۔۔۔
شفا کی آنکھیں اُسکے دل کا حال بتا رہی تھی ۔
امی یے کیا کہ رہی ہے آپ ۔
آپ جانتی تو ہے میں ابھی شادی نہیں کرنا چاہتی ۔میں پڑھ رہی ہو ۔۔
شفا نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا ۔۔۔
بیٹا روز روز اچھے رشتے نہیں آتے ۔۔
وہ تمہیں پڑھنے سے نہیں منہ کرینگے ۔۔
اور تمہیں تو خوس ہونا چاہیے کی تمھیں ۔اتنا اچھا پریوار مل رہا ہے ۔۔
اور تمہاری دعا بھی قبول ہو گئی۔
بہُت دعا مانگتے تھی نہیں تم کی تمھاری ساس نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔
نہیں ہے وہ ۔۔۔
امی آپ بھی نہ ۔کہتے ہوئے شفا کمرے میں چلی گئی ۔
دوپہر کے وقت مہمان آگئے ۔۔اور رشتا پکّا کر دیا ۔۔
شفا بہُت اُداس تھی ۔
وہ اپنے دل سے مجبور تھی ۔۔کیا کرے کیا نہ کرے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔۔
اُدھر بلال شادی کے لیے راضی نہیں تھا ۔اس کی مرضی کے بنا اُس کے ابّو اور آپی رشتا کر آئے تھے۔
شام کو ذیشان کا فون آیا ۔شفا کھل گئی جیسے پھول کھل جاتا ہے ۔۔
ذیشان بولا میری فون کا انتظار کر رہی تھی ۔
شفا خاموش ہو گئی ۔۔
ذیشان بولا تمہارے خاموشی کچھ کہ رہی ہے ۔
شفا بولی ،ذیشان میں تم سے کچھ کہنا چاہتی ہو ۔
ذیشان بولا ، آج کچھ مت کہو ۔۔۔
ذیشان کے اس الفاظ نے شفا کو سن کر دیا تھا ۔
ذیشان بولا شفا کیا بچپن کی باتے تمھیں بھی یاد آتی ہے ۔جیسے مجھے آتی ہے ۔
وہ میرے الفاظ بچپن کے تمھیں یاد ہے ۔ شفا خاموش تھی ۔اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔محبت کے آغاز کو وہ محسوس کر رہی تھی ۔۔
شفا میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہو ۔اپنے بچپن کے وعدے کو پورا کرنا چاہتا ہو ۔۔۔
شفا کی آنکھیں بند ہو گئی تھی ۔وہ ذیشان کی محبت کو محسوس کر رہی تھی ۔۔
کچھ تو بولو شفا ،،
ذیشان نے کہا ۔
شفا ایک پل کو یہ بھول گئی تھی کی اُس کا اب رشتا ہو گیا ہے ۔محبت سے بول پڑی ذیشان ۔
ذیشان بولا ،شفا ،
دونوں نے ایک دوسرے کا نام لیا ۔
دونوں اپنے محبت کے جہاں میں کھو گئے۔۔
ذیشان شفا سے کچھ کہنا چاہتا تھا ۔
لیکن نہیں کے پایا ۔
شفا ذیشان سے کچھ کہنا چاہتی تھی ۔مگر نہیں کہہ پائی ۔۔۔
دونوں نے اپنے اپنے راز اب چھپانے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔دونوں محبت میں آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔۔وہ دونوں یہ بھول چکے تھے کی ۔اُن کا رشتا ہو چکا ہے ۔دونوں ایک دوسرے کی حقیقت سے دور تھے ۔۔ذیشان یے نہیں جانتا تھا ۔کی اس کا جس لڑکی سے رشتا ہوا ہے وہ شفا ہی ہے ۔
شفا بھی یے بات نہیں جانتی تھی ۔۔
ذیشان کے ابّو اور شفا کے ابّو بہت پرانے دوست تھے
ذیشان جس شفا کو سمجھ کر جس شفا سے بات کر رہا تھا ۔وہ ۔ایک لڑکی نہیں تھی۔
اور شفا بھی جس ذیشان سے بات کر رہی تھی وہ ،وہ ذیشان نہیں تھا ۔جس کو وہ بچپن میں جانتی تھی ۔ایک گلطفہمی میں دونوں فس چکے تھے۔۔۔
جب محبت پروان چڑھ چکی تو ۔ذیشان نے شفا کو اور شفا نے ذیشان کو بتا دیتا کی اُس کا رشتا ہو گیا ہے ۔دونوں دیوانے ایک دوسرے سے انجان تھے ۔
عجیب مُشکِل تھی ۔دونوں نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔
نہ شفا کے ابّو راضی تھے ۔نہ بلال ذیشان کے ابّو ۔
دونوں نے بھاگنے کا وقت مقرر کر لیا ۔۔
ایک روز موقع دیکھ کر دونوں گھر سے بھاگ گئے ۔۔
بس اسٹینڈ پر ذیشان نے اپنا پرس نکالا تو اس میں
زاہد انکل کی فوٹو لگی تھی ۔
شفا نے فوٹو دیکھی اور حیرانی سے بولی ۔یے کوں ہے ۔ذیشان بولا یے میرے ابّو ہے ۔
شفا بولی بلال ۔۔
ذیشان بولا ۔۔
ہا شفا ۔۔
شفا، حیران ہو گئی اب اُسے سمجھ آگیا تھا ۔کی جس سے اس کا رشتا ہوا ہے وہ ۔
بلال ذیشان ہی ہے ۔۔۔
ایک طرف شفا خوس بھی تھی دوسری طرف حیران ۔
شفا ایک دم سے ہنس پڑی ۔۔
اور آسمان کی طرف نگاہے کرکے بولی وہ خدایا ۔
کیا جوڈی بنائی ہے۔
تو ملا رہا ہے ۔اور ہم بھاگ رہے ہے ۔۔۔,
شفا نے ذیشان سے کہا ذیشان میں جا رہی ہے ۔۔۔
ذیشان بولا کہا ۔۔۔
شفا کی ہسی نہیں روک رہی تھی لیکن فر بھی اس نے اپنی ہنسی دبا لی تھی ۔۔۔
ذیشان بولا شفا بیچ رہ میں چھوڑ کر جائیگی ۔۔۔
شفا بولی میں جا رہی ہو ۔اپنی حقیقت کی دنیا میں ۔یے خوابوں کی دنیا ۔بلکل حسین نہیں ہے ۔
اور میں اس لڑکے سے ہی شادی کرونگی جس سے میرے ابّو نے پکّی کی ہے ۔۔ذیشان بولا ہا جاؤ جاؤ۔ میں بھی مرا نہیں کا رہا تم سے شادی کرنے کی ۔میں بھی اسی سے کر لونگا ۔۔۔۔
Milind salve
21-Apr-2022 11:09 PM
Good
Reply
Shaqeel
11-Jan-2022 08:57 PM
Bahut badiya
Reply
Simran Bhagat
10-Jan-2022 12:15 PM
Nice👌👌👌👌
Reply